20 نومبر 2025 - 06:03
مرکزی دھارے کے ذرائع شکست کھا گئے / اسرائیل کے بارے میں امریکی رائے عامہ نے کروٹ لی ہے، امریکی مصنفہ + ویڈیو

ایک امریکی مصنفہ نے اعتراف کیا ہے کہ مرکزی دھارے کے امریکی ذرائع ابلاغ سوشل میڈیا کے مقابلے میں ناکام ہو چکے ہیں   / امریکہ کی نوجوان نسل اسرائیل کے خلاف بیدار ہو گئی ہے! / ہمارے نوجوان سمجھتے ہیں کہ ہولو کاسٹ کا [آج کا] سبق یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف جدوجہد کریں؛ بڑے طاقتوروں کے مقابلے میں کھڑے ہو جائیں جو کمزوروں پر ظلم و ستم کر رہے ہیں۔"

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سابق صدر بارک اوباما کی تقاریر لکھنے والی امریکی مصنفہ سارا ہورووٹز (Sara Hurwitz) نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا: میرے خیال میں 23 اکتوبر 2023ع‍ سے، اور در حقیقت اس پہلے بھی، امریکی معاشرے میں یہودیوں اور اسرائیل کے بارے میں، گہری تبدیلی آئی ہے۔ یہ تبدیلی نوجوان نسل میں بہت نمایاں ہے اور ہم ایک نئی اور سنجیدہ نسل دراڑ کا سامنا کر رہے ہیں۔

ایک وجہ یہ ہے کہ سماجی رابطے کے نیٹ ورکس خبروں اور اطلاعات کے حصول کا بنیادی ذریعہ بن گئے ہیں۔

ماضی میں امریکہ کے اندر صرف مین اسٹریم کے امریکی ذرائع خبروں کا منبع تھے؛ جو شدید اسرائیل مخالف آراء کو فروغ نہیں دیتے تھے۔ اور جزوی اثر رکھنے والے یا عالمی ذرائع کے لئے لائبریریوں اور خاص اور نادر ذرائع سے رجوع کرنا پڑتا تھا؛ لیکن آج سماجی رابطے کے نیٹ ورکس عالمی ذریعہ ہیں اور ان کے الگورتھم اربوں صارفین کے ہاتھوں تشکیل پاتے ہيں، جن میں سے بہت سے لوگ یہودیوں کے بارے میں مثبت رائے نہیں رکھتے۔

سنہ 1990ع‍ کے عشرے میں ایک امریکی نوجوان شاذ و نادر ہی الجزیرہ جیسے ذرائع اور نونازیت (Neo-Nazism) کے علمبردار نک فوئنٹس (Nick Fuentes) جیسے کرداروں کا سامنا کرنا پڑتا تھا؛ لیکن آج یہ باتیں خود اس تک پہنچ جاتی ہیں اور اس کے موبائل فون پر براہ راست نمایاں ہوتی ہیں۔

علاوہ ازیں ذرائع ابلاغ کا بعد از خواندگی (Post-literacy or Post-literacy Education) کے مرحلے میں پھنچنا بھی قابل توجہ ہے: متن کا حجم بہ کم ہو چکا ہے اور ویڈیو معطیات کا غلبہ ہے۔

ٹک ٹاک پورے دن کے دوران ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں کو غزہ کی تباہ کاریوں اور مقتولین کی دل دوز تصاویر سے بھر دیتا ہے۔ اسی بنا پر اب ہم جوان تر یہودیوں کے ساتھ معقول اور منطقی بات چیت نہیں کر سکتے۔ ہم جیسی بھی دلیل دیں، دیوار کے پیچھے سے خون اور موت کی 'تصاویر' 'سنائی' [اور دیکھی] جاتی ہیں۔ ہم انہیں 'حقیقت' اور 'منطق' پیش کرتے ہیں لیکن ان کے ذہنوں میں صرف المیے کے مناظر کندہ ہو چکے ہیں، اور ہماری باتیں ان کے لئے ناقابل برداشت اور توہین آمیز نظر آتی ہیں۔

بدقسمتی سے ـ میرے خیال میں ـ وہ دانشمندانہ شرط یہودی برادری نے ہولوکاسٹ کی تعلیم پر رکھی تھی۔ یعنی یہ کہ یہ ذریعہ اور یہ اوزار جو کسی وقت یہود مخالف رجحانات سے نمٹنے کے سب سے اہم اور بنیادی اوزار کے طور پر استعال ہؤا کرتا تھا بدقسمتی سے آج اس نئے ابلاغیاتی میدان میں ٹوٹ رہا ہے۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہولوکاسٹ کی تعلیم مطلقاً بہت ضروری ہے! لیکن میرا خیال ہے کہ حتی اسی مسئلے نے، خود، ہمارے کچھ نوجوانوں کو یہود دشمنی (Antisemitism) کی حقیقت کے بارے میں حیرت سے دوچار کر چکا ہو۔ انہوں نے سیکھ لیا ہے کہ یہود دشمنی کا مطلب یہ ہے کہ کچھ طاقتور نازی آگئے ہیں جو کمزور، لاغر اور نہتے یہودیوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہود دشمنی سیاہ فاموں کے خلاف نسل پرستی جیسی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ یعنی طاقتور سفید فام بالکل نہتے اور کمزور سیاہ فاموں کے مقابلے میں۔ اب جب وہ ہر وقت ٹیک ٹاک پر مسلسل، طاقتور اسرائیلیوں کو دیکھتے ہیں جو کمزور اور نہتے فلسطینیوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، یہ بالکل فطری امر ہے کہ وہ یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ "ہولو کاسٹ کا [آج کا] سبق یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف جدوجہد کریں؛ بڑے طاقتوروں کے مقابلے میں کھڑے ہو جائیں جو کمزوروں پر ظلم و ستم کر رہے ہیں۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha